انکارِ حدیث کیوں؟
(۲)
از: مولانا محمد یوسف لدھیانوی
(۲) مرتبہ حدیث خود صاحب حدیث
کی نظر میں
”حدیث نبوی
.... حجت ہے یا نہیں؟“ اس نزاع کا جو فیصلہ قرآن کریم نے
فرمایا ہے وہ مختلف عنوانات کے تحت آپ کے سامنے آچکا ہے، آئیے اب یہ
دیکھیں کہ خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم نے اپنی احادیث
مبارکہ اور اپنے ارشادات طیبہ کے حجت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں
کیا فیصلہ فرمایا ہے؟
یہ تو ظاہر
ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات گرامی امت کے تمام نزاعی
امور کا فیصلہ کرنے کے لئے آخری عدالت ہے۔ آپ صلى الله عليه
وسلم کے ہر فیصلہ پر دل وجان سے راضی ہوجانا معیار ایمان
ہے، اور قرآن کریم کا حلفیہ بیان ہے کہ جو لوگ آپ صلى الله عليه
وسلم کے فیصلہ پر راضی نہ ہوں اوراس کے لئے سر تسلیم خم نہ کریں
وہ ایمان سے محروم ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
فَلاَ
وَرَبِّکَ لاَ یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ
فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِی
اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.
(النساء، آیت۶۵)
ترجمہ: ”سو قسم ہے
تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف
جانیں، اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے، پھرنہ پاویں اپنے دل
میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی
سے۔“
جب قرآن کریم
نے امت کے تمام جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو منصف قرار دیا
ہے تو لازم ہے کہ آں حضرت صلى الله عليه وسلم ہی سے اس کا فیصلہ لے لیا
جائے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے لائے ہوئے دین میں آپ صلى الله عليه
وسلم کی احادیث کا کیا مرتبہ ہے؟ آپ کے فیصلہ کے بعد کسی
قسم کی کٹ حجتی کی ضرورت نہ رہے گی۔ آیات بینات
کے بعد اب فیصلہ نبوت سنئے۔
(۱) پوری امت کو مخاطب کرکے فرمایاجاتا
ہے کہ ایسا شخص ایمان سے محروم ہے جس کی خواہشات نبی کریم
صلى الله عليه وسلم کی لائی ہوئی ہر چیز سے ہم آہنگ نہیں
ہوجاتیں۔
”عن عبد
اللّٰہ بن عمرو رضی اللہ عنہما عن النبیِّ صلی اللّٰہ
علیہ وسلم قال: ولا یوٴمن أحدُکُمْ حتّٰی یکونَ
ہواہُ تَبَعًا لما جئتُ بہِ“ (رواہ فی الشرح السنہ وقال النووی فی
اربعینہ ہذا حدیث صحیح رویناہ فی کتاب الحجة باسناد
صحیح مشکوٰة ص:۳۰)
ترجمہ: حضرت
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه
وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار
نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس (شریعت) کے تابع نہیں
ہوجاتیں جس کو میں لے کر آیا ہوں۔“ (مشکوٰة:۳۰)
(۲) نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی
سنت کے تارک اور آپ کے اوامر کی اقتداء نہ کرنے والے ناخلف دروغ گو اور غلط
کار ہیں اور جو شخص ان کے ساتھ ”ہاتھ“ زبان یادل کے ساتھ جہاد نہیں
کرتا وہ بھی ذرہ ایمان سے محروم ہے۔
”عن ابنِ
مَسْعودٍ رَضی اللہ عَنْہُ قال قال رسولُ اللّٰہِ ما مِنْ نَبیٍ
بَعَثہ اللّٰہُ فِیْ أمتہِ قَبلی الا کَانَ لَہُ فی أمتہ
حَوارِیُونَ وأصحابٍ یأخُذُون بِسُنتِہ ویقتدون بأمرِہِ، ثُمَّ
انَّہا تخلُف مِن بَعْدِہم خُلُوفٌ یقُولُونَ ما لا یَفْعَلُوْنَ ویفعلُونَ
ما لا یُوٴمَرُونَ فَمَن جَاہَدہُمْ بِیَدہ فَہُو مُوٴْمِنٌ
ومَن جَاہَدَہم بِلِسانِہِ فہُو مُوٴْمِنٌ ومَن جَاہَدَہم بِقلبِہِ فَہُو
مُوٴْمِنٌ ولیس وراء ذلِکَ مِن الایمان حبَةُ خردلٍ“ (رواہ
مسلم)
ترجمہ: ”عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے
فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی اللہ تعالیٰ
نے بھیجا اس کی امت میں ضرور ایسے خاص لوگ اس کے دین
کے مددگار رہا کئے جو اس کی سنت پر عمل پیراہوتے اور اس کے حکم کی
اقتداء کرتے۔ پھر ان کے بعدایسے ناخلف پیداہوئے جو ایسی
باتیں کہتے جن پر عمل نہ کرتے اور ایسے افعال کرتے جن کا ان کو حکم نہیں
دیاگیا (یہی اس امت میں ہوگا) پس جو شخص ان لوگوں
کے ساتھ ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو ان کے ساتھ دل سے جہاد کرے وہ بھی
مومن ہے اس کے علاوہ ایمان کا ذرہ نہیں۔“ (مشکوٰة ص:۲۹ بروایت صحیح مسلم)
(۳) سنت نبویہ (صلى الله عليه وسلم) سے
اعراض کرنے والوں کا ذات نبوی صلى الله عليه وسلم سے کوئی تعلق نہیں۔
”عن أنسٍ
رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
(فی حدیثٍ فیہِ قِصةٌ) فَمَن رَغِبَ عَن سُنّتِی فَلیس
منی“
(متفق علیہ)
ترجمہ:”حضرت انس
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں۔“
(بخاری ومسلم)
(۴) انکار حدیث کا نعرہ لگانے والے دجال
اور کذاب ہیں۔
”عن أبی
ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی
اللّٰہ علیہ وسلم: یکونُ فی آخرِ الزمان دجّالُونَ
کَذَّابُونَ یأتُوْنَکُمْ مِن الأحادیث ما لم یَسمَعُوْا أنتُمْ
ولا آبائکم فایاکُمْ لا یضِلّوْنَکُمْ ولا یفتِنُونَکُمْ“ (رواہ
مسلم)
ترجمہ: ”حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
آخری زمانہ میں ایسے ایسے دجال اور کذاب ہوں گے جو تمہیں
ایسی ایسی باتیں سنائیں گے جو نہ تم نے کبھی
سنی ہوں گی نہ تمہارے باپ دادا نے۔ پس ان سے بچو، ایسا نہ
ہو کہ تمہیں گمراہ کردیں یا فتنہ میں ڈال دیں“۔
اس حدیث سے
معلوم ہوا کہ جو لوگ ایسے نظریات پیش کرتے ہیں جوامت کی
گذشتہ صدیوں میں کبھی نہیں سنے گئے وہ دجال وکذاب ہیں
انکار حدیث کا نظریہ بھی اسی قسم کا ہے۔
(۵) انکار حدیث کا منشاء شکم سیری،ہوا
پرستی اور گندم خوری کے سوا کچھ نہیں۔
”عن
المقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ قال قال رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی
اللّٰہ علیہ وسلم: ألا انی اُوتیتُ القرآن ومِثْلَہُ ألا یوشک
رجلٌ شبعان علی أریکتہ یقول علیکم بِہذا القُرآن فَمَا
وَجَدْتُمْ ... فیہ مِنْ حلالٍ فاحلُوہ وما وَجَدْتُمْ فیہ منْ حرامٍ
فحَرِمُوہ وأن ما حَرم رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم کما حرم اللّٰہ“ الحدیث. (رواہ ابوداود،
دارمی، ابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۹)
ترجمہ: ”مقدام بن
معدی کرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه
وسلم نے فرمایا۔ سن رکھو! مجھے قرآن بھی دیاگیا اور
قرآن کے ساتھ اس کے مثل بھی، سن رکھو! قریب ہے کہ کوئی پیٹ
بھرا تکیہ لگائے ہوئے یہ کہنے لگے کہ لوگوں! تمہیں یہ
قرآن کافی ہے بس جو چیز اس میں حلال ملے اسی کو حلال
سمجھو! حالانکہ اللہ کے رسول کی حرام بتلائی ہوئی چیزیں
بھی ویسی ہیں جیسی اللہ تعالیٰ کی
حرام بتلائی ہوئی۔“
(۶) جب امت میں اختلاف رونما ہوجائے اور
ہر فرقہ اپنی تائید قرآن سے ثابت کرنے لگے اس وقت سنت نبوی کو
لازم پکڑنا اور قرآنی مطالب کے افہام وتفہیم میں اسوئہ نبوت کو
فیصل قرار دینا ہی اصل منشاء دین ہے۔ ایسے
نازک وقت میں حدیث نبوی سے دست کشی گمراہی کا پہلا
زینہ ہے۔ اورنئے نظریات اوراعمال کااختراع کج روی کا سنگ
بنیاد ہے۔
”عن
العرباض بن ساریة رضی اللّٰہ عنہ قال صَلّی بنا رَسُوْلُ
اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذاتَ یومٍ ثُمَّ
أقْبَلَ علینَا بوجہِہِ فَوَعظَنا مَوْعِظَةً بلیغة ذَرَفَتْ مِنْہا
العیون، ووَجَلَتْ مِنْہا القلوب، - فقال رَجُلٌ یا رَسُوْلَ اللّٰہِ
صلى الله عليه وسلم کَأنّ ہذِہِ مَوْعِظَة
مُوَدَّع فَأوصنا - فقال أوصِیکُمْ بتَقوَی اللّٰہ والسَمع
والطاعَة، وان کان عبدًا حبشیًا“ (رواہ أحمد، وأبوداود والترمذی،
مشکوٰة ص:۲۹)
ترجمہ: ”حضرت
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله
عليه وسلم نے ایک دن ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف
متوجہ ہوئے۔ پس ہمیں بہت ہی موثر وعظ فرمایا۔ جس سے
آنکھیں بہہ پڑیں، اور دل کانپ گئے۔ آپ سے ایک شخص نے کہا یا
رسول اللہ یہ تو ایسالگتا ہے، جیسے کسی رخصت کرنے والے کی
نصیحت ہو۔ پس ہمیں وصیت فرمائیے۔ فرمایا
... کہ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے
رہنا اور اپنے حکام کی بات سننا اور ماننا خواہ حاکم حبشی غلام ہو۔“
(۷) حدیث جیسے بدیہی
اور اجماعی مسائل میں نزاع اور جدال پیدا کرنے والے ہدایت
چھوڑکر راہ ضلالت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
”عن أبی
أمامة رضی اللّٰہ عَنہُ قال قال رسولُ اللّٰہ صلى الله عليه
وسلم ما ضل قوم بعد ہُدًی کانوا علیہ الا أوتُوا الجدل، ثُمّ قرأ
رسولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم مَا ضَرَبُوہ لک الا جدَلا، بل ہُمْ قومٌ
خَصِمُوْن“
(رواہ أحمد، وأبو داود والترمذی)
ترجمہ: ”حضرت
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہادی اعظم صلى الله عليه
وسلم کا ارشاد ہے۔ جب بھی کوئی قوم ہدایت کھوکر گمراہ
ہوجاتی ہے۔انہیں جھگڑا دے دیا جاتا ہے (پھر وہ ایسے
واضح مسائل میں بھی جھگڑتے ہیں، جن میں نہ کبھی
نزاع کی نوبت آئی اور نہ عقل سلیم ایسے امور میں
بحثا بحثی کا تصور کرسکتی ہے۔“
(۸) زہر ضلالت کیلئے اسوہ نبوت تریاق
اعظم ہے جب تک کتاب اللہ کے ساتھ سنت رسول صلى الله عليه وسلم کو دینی
سند کی حیثیت سے تسلیم کیاجاتا رہے گا۔ امت
گمراہی سے محفوظ رہے گی، لیکن جونہی کتاب وسنت میں
تفریق کی جانے لگے گی اورامت کی آوارہ مزاجی کتاب
اللہ کے ساتھ سنت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اتباع کو بار دوش تصور
کرنے لگے گی، اس وقت امت قعر ضلالت میں جاگرے گی۔
”عن
مالِک بن أنسٍ قال قال النبی صلى الله عليه وسلم ترکتُ فیکم أمرین
لَنْ تضلّوا ما تَمَسکتُمْ بِہِما، کتابُ اللّٰہِ وَسُنةُ رسُوْلِہ“ (رواہ
فی الموطأ)
ترجمہ: ”امام مالک
نے مرسلاً روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا۔
میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جب تک ان دونوں کا
دامن مضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (۱) کتاب اللہ (۲) سنت
رسول اللہ۔
(۹) آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی تشریف
آوری کے بعد کسی شخص کیلئے بھی یہ گنجائش باقی
نہیں رہ جاتی کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی اتباع سے انحراف
کرے۔ حتی کہ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ
ہوتے تو ان کو بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی اتباع کے بغیر چارہ
کار نہ ہوتا۔
”عن
جابرٍ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلى الله عليه وسلم لَوْ کَانَ
مُوْسٰی حیًّا مَا وَسِعَہ الا اتباعی“ (رواہ
أحمد، والبیہقی، مشکوٰة ص:۳۰)
ترجمہ: ”حضرت جابر
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خاتم النّبیین صلى الله عليه
وسلم نے فرمایا۔ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی
زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔“
”وفی
روایةٍ: والذی نفسُ محمد صلى الله عليه وسلم بیدہِ لو بدأ لکم
موسٰی فاتبعتُمُوہ وترکتمونی لضلَلتُم عَنْ سواء السبیل
وَلو کان موسٰی حیًّا وأدرکَ نبوتی لاتبعنی“ (رواہ
الدارمی، مشکوٰة ص:۳۲)
ترجمہ: ”اور ایک
روایت میں اس طرح ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں
محمد صلى الله عليه وسلم کی جان ہے۔ اگر وہ (یعنی موسیٰ
علیہ السلام) تمہارے سامنے ظاہر ہوجائیں پس تم ان کی اتباع کرو
اور مجھے چھوڑ دو تو تم راہ راست سے قطعاً بھٹک جاؤگے، اگر موسیٰ علیہ
السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو بالضرور وہ
میری ہی پیروی کرتے۔“ (دارمی، مشکوٰة:
۳۳)
(۱۰) آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی
حدیث پوری طرح محفوظ کرنے اور امانت نبوت دوسروں تک پہنچانے والے
بارگاہ نبوت سے تازہ روئی کی دعاؤں کے مستحق ہیں۔
”عن ابن
مسعودٍ رضی اللہ عَنہ قال قال رسُولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم
نَضّرَ اللّٰہُ عَبدًا سَمعَ مقالتِی فَحَفظہا ووعاہا فأدّاہا“ (رواہ
أحمد، والترمذی وأبوداود وابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۹)
ترجمہ: ”حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه
وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بندے کو خوش وخرم رکھے، جس نے میری
حدیث سنی اور اسے یاد کیا اور محفوظ رکھا۔ پھرجیسی
سنی تھی، ٹھیک ٹھیک ادا کردی۔“
اور امام احمد،
ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے یہ حدیث حضرت زید
بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے (یہ تمام احادیث
مشکوٰة شریف میں ہیں)
خدا تعالیٰ
اوراس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی شہادت آپ کے سامنے ہے۔ ان دو
شاہدوں کی شہادت کے بعد اہل ایمان کے لئے شک اور تردد کی گنجائش
ظاہر ہے کہ باقی نہیں رہ جاتی۔ البتہ جن سے ایمان کی
دولت ہی کو سلب کرلیا گیا ہو، کس کے اختیار میں ہے
کہ ان کو تشکیک کے روگ سے نجات دلاسکے اور کونسا سامان ہدایت ہے جو ان
کیلئے سود مند ہوسکے۔ ”فَمَا
تغنِ الآیات والنُذر عن قومٍ لا یوٴمِنون“ (جن
کو ایمان نہیں لانا ہے ان کیلئے نہ کوئی آیت سود
مند ہوسکتی ہے نہ کوئی ڈرسنانے والے)۔
سلامت طبع کے ساتھ
قرآن پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ اسی قرآن کا حوالہ دے کر بتلانے
والے لوگوں کو یہ بتلاتے ہیں کہ:
”یہ تصور
قرآن کی بنیادی تعلیم کے منافی ہے کہ اطاعت اللہ کے
سوا کسی اور کی بھی ہوسکتی ہے حتی کہ خود رسول (بغیر
صلوٰة وسلام) کے متعلق واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بتلادیا،
کہ اسے بھی قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت
کرائے۔ (معارف القرآن از پرویز)
مسلمانوں کے ہاتھ
جو قرآن ہے اس کی بنیادی تعلیم اوپر معلوم ہوچکی
ہے،جس میں بار بار اطاعت رسول (صلى الله عليه وسلم) پر زور دیاگیا
ہے، سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسا قرآن ہے جس کی بنیادی تعلیم
اطاعت رسول صلى الله عليه وسلم کے منافی ہے اور قرآن کے وہ کونسے واضح اور غیرمبہم
الفاظ ہیں جن میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے اطاعت کا حق سلب کیاگیا
ہے۔ قرآن کی جو آیات اوپر نقل کی گئی ہیں ایک
دفعہ انہیں پھر سے بار بار پڑھ لیجئے اور ان کے ساتھ مسٹرپرویز
کی مندرجہ بالا عبارت کو ملائیے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ
اس سے بڑھ کر افتراء علی اللہ کبھی کیاگیا؟
قرآن حکیم
بتاتا ہے کہ نبی کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی
اطاعت کی جائے۔ قرآن کا نام چرانے والے مفتری اعلان کرتے ہیں
کہ
”رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی
قطعاً حق حاصل نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے۔“
قرآن کریم
نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت
خداوندی قرار دیتا ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم کے حکم سے اعراض کرنے
والوں کو منافق قرار دیتا ہے لیکن قرآن کا نام بدنام کرنے والے منافق
لوگوں کو بتلاتے ہیں کہ۔
”اسے (نبی
کو) بھی کوئی حق حاصل نہیں کہ ”کسی سے اپنی اطاعت
کرائے“۔ بہرکیف قرآن کی آیات آپ کے سامنے ہیں۔
ان کو پڑھ کر فیصلہ کیجئے کہ کیا یہی قرآن رسول
اقدس صلى الله عليه وسلم سے اطاعت کا حق چھین سکتا ہے؟ جس کی صدہا آیات
میں بار بار حلفی تاکیدات کے ساتھ اطاعت رسول صلى الله عليه
وسلم کا مطالبہ کیاگیا ہے۔“
دنیا کی
جس گمراہی پر غور کروگے، اس کا آخری نقطہ اس قدر کج در کج اور پیچ
در پیچ ہوگا جس سے عقل سلیم نفرت کرے گی اورجسے ثابت کرنے کیلئے
زمین و آسمان کے ہزاروں قلابے ملائے جائیں گے، تاہم عقل صحیح
اسے ہدایت کی ادنیٰ ٹھوکر سے ٹھکرائے گی۔
فتنہ انکار حدیث
نے کس قسم کے ہذیانات اور خرافات کو جنم دیا اس کی تفصیل
تو شاید کسی دوسری جگہ آئے گی، لیکن ایک
خرافاتی معمہ کا تذکرہ یہاں بھی کرہی دینا چاہئے۔
مطلب یہ کہ
ایک طرف آپ ان کج طبع اور خام عقل لوگوں سے سنیں گے کہ وہ صاحب وحی
صلى الله عليه وسلم سے قرآن کا بیان کردہ ”حق اطاعت“ چھین لیتے
ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ اطاعت کا یہی حق وہ
”مرکز ملت“ کے نام سے حکومت وقت کو دے ڈالتے ہیں۔ ایک طرف یہ
چاہا جاتا ہے کہ پوری امت کا رشتہٴ اطاعت اس کے نبی صلى الله
عليه وسلم سے کاٹ دیا جائے۔ دوسری طرف ایڑی چوٹی
کا زور لاگیا جاتا ہے کہ ہر سکندر و دارا کو اللہ اور رسول مان کر اس کے
سامنے سرنیاز خم کردو۔ ایک جانب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
کو پیغام رسانی کے بعد منصب رسالت سے معزول کردیا جاتا ہے۔
دوسری جانب بتلایا جاتا ہے (اور قلم کو تاب نہیں کہ اسے آسانی
سے نقل کرنے پر آمادہ ہو) کہ۔
”قرآن حکیم
میں جہاں اللہ ورسول کا ذکر آیا ہے اس سے مراد مرکز نظام حکومت ہے۔“
(معارف القرآن از پرویز)
استغفراللہ ایک
طرف اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم سے عداوت ودشمنی
کا یہ عالم کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ایک بات کا ماننا
بھی گوارا نہیں کیا جاتا، دوسری طرف طاغوت کے ساتھ دوستی
کا یہ حال کہ ہر ڈکٹیٹر کو خدائی اور رسالت کا منصب تفویض
کیا جاتا ہے،اور اصرار کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں
کہیں ”اللہ ورسول“ کا لفظ دیکھو اس سے مراد صدر مملکت سمجھو، اور سچے
خدا اور سچے رسول صلى الله عليه وسلم کو چھوڑ کر ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرو۔
اسکندر مرزا ہو یا غلام محمد، ناظم الدین ہو یا ایوب خان،
ذوالفقار علی بھٹو صدر ضیاء الحق، جونیجو یا بینظیر،
جو بھی کرسی نشین اقتدار ہو، اسی کو اللہ اور رسول سمجھو!
اسی کے سامنے ڈنڈوت بجالاؤ۔ اور چند ٹکے سیدھے کرنے کے لئے اللہ
ورسول سے اطاعت چھین کر برسراقتدار قوت کو دے ڈالو۔ ولا حَولَ ولا
قُوة الا باللّٰہِ ستم یہ کہ اگرایسا نہ کروگے تو نہ ”اسلام
طلوع“ ہوگا، نہ قرآنی ربوبیت منظر عام پر آئے گی بلکہ اسلام عجمی
سازش کا شکار رہے گا۔
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
کیا اس سے زیادہ
کجی اور زیغ پن کی مثال دنیا کی تاریخ پیش
کرسکتی ہے؟
انکار حدیث
کوئی علمی تحریک نہیں۔ یہ جہالت کا پلندہ ہے۔
اس کا اصل منشا صرف یہی ہے کہ اب تک ایک ہی خدا کی
عبادت اور ایک رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کی جاتی
تھی۔ لیکن اس نام نہاد ترقی یافتہ دور کے تعلیم
یافتہ آزروں کو ہر روز نیا خدا چاہئے، جس کی وہ پوجا کیاکریں،
اور ہر بار نیا رسول ہونا چاہئے جو ان کے لئے نظام ربوبیت کی
قانون سازی کیا کرے؟ خدا کا غضب ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کو یہ
بتایا جاتا ہے کہ اللہ و رسول سے مراد ”مرکز ملت“ ہے لیکن ان میں
کسی کو بھی اس کے سننے سے قے نہیں آتی۔
کیاکوئی
ذی شعور تسلیم کرے گا کہ ”اللہ“ ذات پاک کا نام نہیں بلکہ اس سے
مراد ”مرکز ملت“ ہے اور ”الرسول“ کالفظ جو قرآن میں بار بار آتا ہے اس سے
مراد ”محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم“ نہیں بلکہ اس سے مراد حکمرانوں کی
وہ ٹولی ہے جو اپنے پاس سے قانون گھڑ گھڑ کر قرآن کے نام چسپاں کیا
کرے؟
﴿فویلٌ
لِلذِیْنَ یکْتُبونَ الکِتابَ بأیدیہم ثُم یقُولُونَ
ہذا مِن عِند اللّٰہ﴾
اب تک دنیا
کے عقلاء یہی بتلاتے رہے کہ اعلام شخصیہ میں شرکت جائز نہیں۔
یعنی زید جس خاص شخص کا نام رکھا گیا ہے لفظ زید جس
وقت کان میں پڑے گا تو ذہن صرف اسی شخص کی طرف منتقل ہوگا جس کا
یہ نام رکھا گیا لیکن دوسروں کو ”ملائیت اور دقیانوسیت
کا طعنہ دینے والے پیران نابالغ آج بتلاتے ہیں کہ لفظ ”اللہ“ یا
”الرسول“ جس ذات خاص کا نام ہے اس سے وہ ذات خاص مراد نہیں بلکہ قرآن میں
جہاں بھی یہ لفظ آیا ہے اس سے مراد صدر مملکت ہے جسے ہر پانچ
سال بعد تبدیل کیا جاسکتا ہے کیا اس منطق کو سمجھنے کے لئے کچھ
زیادہ عقل وفہم کی ضرورت ہے؟
عقل سوخت زحیرت کہ چہ بوالعجبی است
ماں، باپ، بہن،
بھائی، بیوی، بچوں کے مفہوم میں یہ تمام کجروی
اختیار نہیں کی جاتی۔ لیکن اللہ رسول کے
مفہوم میں عقل وفہم کے علی الرغم یہ کجی ”مرکز ملت“ کی
تائید کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اور ماننے والے پوری
”دانائی“ کے ساتھ اسی کو مانتے چلے جارہے ہیں جن مسکینوں
کا اللہ و رسول ہی صنم اقتدار ہو جس کو مرکز ملت کہتے ہیں اندازہ کیا
جاسکتا ہے کہ ان کے دین وایمان علم وعقل اور فہم ودانش کا حدود اربعہ
کیا ہے؟ نیز بیچارے ”قرآن“ کے ساتھ ان کو کیا علاقہ ہے۔
جس کی آیتیں پڑھ پڑھ کر چودہ صدسالہ امت کو عجمی سازش کا
شکارقرار دیا جاتاہے۔
”فکر ونظر“ کی
کجی سے خدا کی پناہ! اتنی صاف، سادہ اور ستھری حقیقت
کو ان فتنہ گروں کا ذہن قبول نہیں کرتا کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلى الله
عليه وسلم کو قرآن کے نازل کرنے والے کی جانب سے اس کی توضیح
وتشریح کا حق بھی عطا کیاگیا ہے۔ ”لتبین
للناس ما نزل الیہم“ اور جو لوگ محمد صلى الله عليه وسلم کے امتی
کہلاتے ہیں ان کیلئے لازم قرار دیاگیا ہے کہ وہ قرآن کریم
کو اپنے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی شرح وبیان کے ساتھ سمجھیں،
پڑھیں اور عمل کریں۔ اس لئے قرآن کے ماننے والوں کو لازم ہے کہ
قرآن کی وہ علمی اور عملی تشریحات جو قرآن لانے والے کی
جانب سے پیش کی گئی ہیں ان کو بھی قبول کریں۔
اور قرآن کی کوئی ایسی شرح ایجاد نہ کریں جو
صاحب قرآن کی پیش کردہ تعلیمات سے ٹکراجائے یہ بات کتنی
صاف اور سیدھی ہے لیکن ان کے لئے ناقابل قبول ہے۔ اوراس
کے برعکس بالکل ٹیڑھی، ترش اور کج در کج بات کہ
”قرآن میں
جہاں کہیں اللہ ورسول کا نام آیا ہے۔ اس سے مراد مرکز نظام
حکومت ہے“۔ اسی کو ان کے کج دماغ اورمبتلائے فتنہ ذہن قبول کئے جارہے
ہیں۔
نعوذ
باللّٰہ من فتنة الصدور وسیعلمون الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون.
ان ظالموں کو بہت
جلد معلوم ہوجائے گا کہ وہ لوٹنے کے لئے کس جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔
(بقیہ
آئندہ)
***
--------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 94 ذيقعده – ذى الحجة 1431 ھ مطابق نومبر 2010 ء